امتحان بھی کیا خوب ہے


امتحان بھی
کیا خوب ہے





از: محمد گل ریز رضا
مصباحی ،بریلی شریف





خادم التدریس جامعۃ
المدینہ فیضان عطار ،ناگ پور





Mob:8057889427





جب سے اس دنیا کا وجود ہوا تو امتحانات کا سلسلہ آج تک کسی نہ کسی صورت میں
پایا جاتا ہے کبھی امتحان آزمائش کی صورت میں ہوتا ہے ،کبھی مال ودولت فنا کرکے
امتحان ہوتا ہے،کبھی سچی محبت کی وادی میں ثابت قدم رہ کر امتحان ہوتا ہے،کبھی عشق
مجازی میں ساری جائز حدوں کو پار کرکے امتحان ہوتا ہے ،کبھی شوہر اور بیوی کے
درمیان امتحان ہوتا ہے ،کبھی بیٹے کے لیے باپ کی جانب سے امتحان ہوتا ہے ،کبھی
طالب علم کےلیے  استاذ کی جانب سے امتحان
ہوتا ہے ،اور اس طرح امتحانات کا ایک طویل سلسلہ نگاہوں کے سامنے ہے ،یونیورسٹیز
،کالجز ،اسکول،مدارس اور جامعات ہر جگہ امتحانات کا ایک نیا اور انوکھا انداز دیکھنے
کو ملتا ہے ۔





امتحان ایک ایسا خطرناک لفظ
ہے جس کے نام سے اچھے ذہین وفطین ماہر طلبہ کی نیندیں اچاٹ ہوجاتی ہیں، اگر امتحان
کسی انسانی صورت میں کہیں پایا جاتا تو شاید دنیا کا سب مظلوم جسم امتحان کا ہوتا
،لیکن جب امتحان کا کوئی جسم خارج میں نہیں ہے تو طلبہ کو اپنے ہیکل لفظ سے ڈرا
دھمکا رہا ہے اور ببانگ دہل یہ اعلان کررہاہے اے کتابوں سے غافلو!اے سونے میں رکاڈ
بنانے والو! اے موبائل میں وقت ضائع کرنے والو!اے فیس بک واٹس ایپ کا بیجا استعمال
کرنے والو ! اب خواب غفلت سے بیدار ہوجاؤ میرے خروج کا وقت آگیا ہے میں جب نمودار
ہوں گا تو میرے وار سے وہی بچ پائے گا جس نے وقت کا صحیح استعمال کیا ہوگا ،جس نے
درسگاہوں میں اسباق دھیان سے سنے ہوں گے ،جس نے گھر سے رخصت ہوتے وقت ماں باپ کی
انکھوں میں امیدوں کی ایک کرن دیکھ کر اسے پورا کیا ہوگا،گویا کہ ان کی انکھیں یہ
کہ رہی تھیں کہ ہم اپنے پیارے کو کسی اہم مقصد سے نظروں سے اوجھل کر رہے ہیں ،آج
میرے یہاں کسی کی سفارش قبول نہیں ہوگی ،میں انسانوں کی طرح رشوت سے راضی نہیں ہوں
گا ،میں کسی کی سفارش قبول نہیں کروں گا آج میرا اعلان’’ھَل مِن مُبَارِز‘‘
ہے کوئی مقابلہ کرنے والا عام ہے، جس طرح میدان جنگ میں مجبور محض نہیں جاتا بلکہ
ایک بہادر جاتا ہے جو فتح وظفر کے ساتھ واپس ہوتا ہے اسی طرح میرے یہاں بھی محنتی
لوگوں کو کامیابی سست ،اور محنت سے جی چرانے والوں کو ناکامی ملے گی ۔





ہندو پاک میں سہ ماہی
،ششماہی ،نوماہی اور سالانہ عام طور یہ چار امتحان ہوتے ہیں لیکن ان  میں سہ ماہی نوماہی کم ہیں ،ششماہی اور سالانہ
ہر جگہ منعقد ہوتے ہیں ،طلبہ شروع سال سے جیسے ہی جامعہ میں قدم رکھتے ہیں کہیں نہ
کہیں ان کے ذہن میں یہ بات موجود رہتی ہے کہ محنت سے پڑھیں گے اور اچھی طرح سے
امتحان میں پاس ہوکر اپنا اور اپنے ماں باپ کا نام روشن کریں گے ،شروع میں  یہ جذبات بہت اچھے رہتے ہیں لیکن دھیرے دھیرے
شریر،سست ،غیر مجتہد طلبہ کی صحبتیں ان میں بھی سرایت کرجاتی ہیں  اوران کی 
بھی صلاحتیں ،محنتیں  سرد ہوجاتی
ہیں ،جس کا نتیجہ  یہ ہوتا ہے اب امتحان کے
دنوں میں ذہن کتابوں کو قبول نہیں کرتا ہے ،مجبورا رٹنے ،رٹانے کا ماحول پیدا کرتے
ہیں،کیوں کہ جس طرح پاس ہونے کے لیے نیندیں قربان ہوتی ہیں ،دوست واحباب سے پہلی
جیسی ملاقاتیں نہیں رہتیں ،موبائیل ،واٹس ایپ کا استعمال کم ہوجاتا ہے،اسی طرح فیل
ہونے کے لیے بھی محنت کرنی پڑتی ہے ،دکھاوے کے طور پر پڑھنا پڑتا ہے،سونے میں کافی
وقت گزارنا پڑتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔  لیکن اس
کا انجام کچھ دنوں بعد سامنے آجاتا ہے یا تو ناکامی ملتی ہے یا گرتے ہوئے پاس
ہوتے ہیں ۔





تمام طلبہ کو بطور نصیحت یہ
مشورہ ہے کہ آپ اپنے گھر کے حالات ،اپنے بھائیوں 
وغیرہ کے حالات پر نظر ڈالیں کہ آپ کے ماں باپ نے اپنے خرچ کو کم کیا،آپ
کے بھائیوں نے کتنی محنت سے مال کماکر اپنے اوپر خرچ نہ کرکے آپ کو پیسے دئیے
،رات ہو یا دن محنت کرتے ہیں سخت چلچلاتی دھوپ ہو یا تیز بارش  ہر وقت انھیں آپ  کی فکر رہتی ہے،آپ نے فون کیا کہ مجھے پیسوں
کی ضرورت ہے انھوں نے  اپنی خواہشات کو دبا
دیا حالاں کہ گھر میں پیسوں کی سخت ضرورت تھی لیکن آپ سے انھوں نے کچھ نہیں کہا
کہیں سے قرض لیا اور آپ کو پیسے ارسال کردئے تاکہ ہمارا بچہ پریشان نہ ہوا   اور آپ کو مدارس اور جامعات صرف اس امید پر
بھیجا کہ آپ ان کی آنکھوں کا چین بنیں ،ان کے خوابوں کا ایک خوب صورت محل تیار
کریں ،میرے پیارے بھائیو ! ایک بار تنہائی میں اسے پڑھ کر ذرا اپنے دل سے پوچھنا
کیا ہم اپنے گھر والوں کے خوابوں کو پورا کررہے ہیں یا ان کی تمناؤں کو فنا کے گھاٹ
اتار رہے ہیں ،سارے طلبہ ایسے نہیں ہوتے ہیں بلکہ اکثر تعداد محنتی طلبہ کی ہوتی
ہے جو اپنے ماں  باپ کے وعدے کو پورا کرتے
ہیں۔





فیل کا تصور بھی ہمارے ذہن
سے نکل جانا چاہیے پوری سال مسلسل جامعہ میں رہ کر ہم نے تعلیم حاصل کی اور پھر
بھی فیل ہوگئے کتنی شرم کی بات ہے۔





جب سے جامعہ میں قدم رکھیں
پہلے دن سے ہی یہ ذہن بنالیں مجھے کچھ بننا ہے ،میرے ماں باپ،بھائی بہن،رشتہ دار
،بستی والوں نے مجھے سے کچھ امیدیں وابستہ کی ہیں اگر آج میں نے محنت نہ کی اور
صرف کمزور نمبروں سے پاس ہوتا رہا اور علم میں گیرائی وگہرائی کچھ نہ آئی اور قوم
نے مجھے علم وہنز کا جبل شامخ  سمجھ کر
مجھے کوئی اہم ذمہ داری سپرد کی اور میں اسے انجام نہ دے پایا تو اس وقت کتنے
لوگوں کی امیدوں کاخون ہوگا کتنی امیدیں شکستہ ہوجائیں گی ۔شیخ سعدی فرماتے ہیں ۔جب
تک انسان بات نہیں کہتا ہے ،اس کے عیب وہنر چھپے رہتے ہیں
۔





میرے پیارے طلبہ !آپ میں
سے ہر شخص کو مستقبل میں قوم کی قیادت کرنی ہے ہر شخص اپنے علاقے ،گاؤں کا  رہنما ہوگا لہذا آنے والے وقت سے پہلے خود کو
علم وفن سے لیس کرلیں ،اور بالخصوص علم کے ساتھ عمل بھی کریں کیوں کہ بغیر عمل کا
علم بے پھل کے درخت کی طرح ہے ،بے عمل کو علم مل بھی جائے لیکن نور علم حاصل نہیں
ہوتا ہے اور ہر طرح کے گناہوں سے خود کو دور رکھیں،حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے فرماتے ہیں :میں نے اپنے استاذ وکیع سے ضعف حفظ کی شکایت کی تو
انہوں نے مجھے ترک معاضی کی وصیت کی ،کیوں کہ علم اللہ کا نور ہے اور نور الہی کسی
گنہ گار کو نہیں دیا جاتا ۔
اور دل لگا کر علم حاصل کریں پھر دیکھیں کہ آپ کے
علم میں کیسے حسن ونکھار آتا ہے اس طرح آپ ترقی کے ہر زینے کو حاصل کرلیں گے
مستقل کی ساری ترقیاں آپ کا انتظار کر رہی ہیں ۔





تنبیہ
:اگر علم میں ترقی اور نکھار دیکھیں تو اللہ تعالی کا شکر بجالائیں    تو اضع وانکساری کی برابر دعا کرتے رہیں ،اور
دعا کریں کہ اللہ تعالی تکبر ،غرور سے محفوظ رکھے ،بڑے بڑے علم کے شہسواروں کے
واقعات آپ کے سامنے ہیں جب ان میں تکبر آیا تو دنیا سے ان کا نام ونشان مٹ گیا
،اور صرف اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لیے علم حاصل کریں متاع دنیا کے لیے علم
حاصل نہ کریں ورنہ یاد رکھیں  حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اللہ کے رسول ﷺ ارشاد فرماتے ہیں جس نے ایسے
علم کو حاصل کیا جس سے اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے مگر اس نے اس لیے سیکھا
کہ اس علم سے متاع دنیا حاصل کرے تو قیامت کے دن اسے جنت کی بو تک میسر نہ ہوگی
۔(ابوداؤد،مشکوۃ)۔


Post a Comment

0 Comments